ارتقاء کہانی
ڈاکٹر محمد طارق
قسط نمبر تین
کالونی کی صورت میں رہتے ہوئے یک خلوی (unicellular)جانداروں میں مختلف خلیوں میں ساخت (structure) اور افعال (functions)کی سپیشالئزیشن ہوئی اور بقاء پر اس کے صحت مند اثرات مرتب ہوئے. اکیلے cell کو خوراک کے حصول، دفاع اور عمِل تولید ,(reproduction) سب سے خود ہی نمٹنا ہوتا ہے جبکہ کالونی میں ہر cell کو ان میں سے صرف ایک ہی کام کرنا ہوتا ہے اور اسی کیلئے وہ سپیشالئزڈ ہوجاتا ہے Cell. اپنے کام میں سپیشالئزڈ ہو اور باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو تو ہر cell اور پوری کالونی کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے. لٰہذا بقاء کیلئے اب کالونی کا ایک ساتھ رہنا ناگزیر ہو گیا. یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ بائیولوجی میں بقاء زندہ بچ جانے کو نہیں بلکہ ایک تولیدی طور پر زرخیز نسل (Reproductively fertile generation) پیدا کرنے کو کہتے ہیں. ایسا جاندار جو ایک زرخیز نسل پیدا کرنے کے قابل نہ ہو، اس کی بقاء خطرے میں ہے. مثلا خچر چونکہ بانجھ ہوتا ہے، اپنی نسل نہیں بڑھا سکتا اس لئے خچر کی بقاء کی شرح صفر ہے. بقاء کی خاطر مختلف cells کے مختلف افعال میں سپیشالئزیشن اور باہمی انحصار نے کالونی کی انتظامی اکائی کو باآلخر کثیر خلوی (multicellular)جانداروں کے ارتقاء کے راستے پر لگا دیا اور آج سے تقریب ًا ایک ارب سال قبل Grypania کی شکل میں پہلے کثیر خلوی پودوں جبکہ 60( سے 90 )کروڑ سال قبل sponges کی شکل میں اولین کثیر خلوی جانوروں کا ارتقاء ہوا. کالونی سے ارتقاء پانے کی بدولت ان ابتدائی کثیر خلوی جانداروں میں نر اور مادہ کا جنس متعین کرنے والے خلیے ایک ہی جاندار کے اندر پائے جاتے ہیں. یہ خلیے ارتقائی منازل طے کرکے پودوں میں پولنز بنانے کیلئے اینتھر اور بیضہ بنانے کیلئے اووری ایک ہی پھول پر پائے جاتے ہیں. اسی طرح ارتھ ورم اعضاء بن جاتے ہیں. مثلا earthwormمیں ایک ہی جسم کے مختلف segments میں اووری) (ovary) تیرہویں segment میں( اور ٹیسٹیز) (testis)پندرہویں segment میں( ہوتے ہیں. گھونگھوں میں بھی یہی انتظام ہے. ایک ہی جسم کے اندر دونوں جنسی اعضاء کے حامل یہ جاندار Hermaphrodite کہالتے ہیں. یہ جاندار یک خلوی جانداروں کی طرح اپنے آپ میں ایک مکمل زندگی ہوتے ہیں جس کے اندر نر اور مادہ اعضاء کے مالپ سے ایک اور مکمل زندگی تخلیق ہوتی ہے. چونکہ جنسی تولید میں( نر )سپرم( اور مادہ )بیضہ کا مالپ ضروری ہوتا ہے، دونوں اعضاء کا ایک جسم کے اندر ہونا جانداروں کی بقاء کیلئے بہت مفید ہوتا ہے. تاہم اس کے نقصانات بھی کم نہیں ہیں. اگرچہ اعضاء مختلف ہیں لیکن ڈی این اے ایک ہی ہے. اس جنسی مالپ کے نقصانات وہی ہیں جو کزن marriage کے، یعنی جینیاتی بیماریوں کی نسل در نسل منتقلی (موروثی بیماریاں) اور باآلخر بقاء کو الحق ہونے والے خطرات (موروثی بیماریوں میں مبتال افراد کی بقاء کی شرح صحت مند افراد سے کم ہوتی ہے). چنانچہ بہت سے Hermaphrodite جاندار دونوں قسم کے جنسی اعضاء کے حامل ہونے کے باوجود اپنے نر اور مادہ اعضاء کی آپس میں مالپ کے بجائے دوسرے جاندار کیساتھ تولیدی مادے کا تبادلہ کر کے بچے پیدا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں. بائیولوجی میں یہ عمل کراس فرٹیالئزیشن(cross fertilization) کہلاتا ہے ہوہرمافروڈائیٹس میں کراس فرٹیالئزیشن کے ساتھ ہی سپی شیز میں نر اور مادہ ارکان کی عٰلیحدگی کے ارتقاء کا سفر شروع جاتا ہے. یہ ایک ابدی ہجر کا آغاز ہے. اس کے بعد دونوں جنس یکجان بننے کی تمنا ہی کرتے رہیں گے )جب تک اساطیری Hermaphroditus کیلئے کسی Salmacis کی دعا قبول نہیں ہو جاتی .کچھ ماہریِن ارتقائی نفسیات کا خیال ہے کہ انسانوں میں محبت پانے کیساتھ متوازی طور پر تکمیل کا جو عمومی احساس یا تصور ہے اس کی وجہ دراصل ہرمافروڈائیٹ جسم (مکمل زندگی) سے دونوں جنسوں کی علٰیحدگی کے نتیجے میں جنم لینے واال ادھورا پن ہے. محبت دو ادھوری جانوں کو ایک کرنے کی جستجو ہے. پتہ نہیں. ماہرین کی ماہرین جانیں. ہمارا کام شواہد جانچنا ہے اور ارتقاء سے متعلق شواہد انتہائی دلچسپ ہوتے ہیں. غور کیجئے کہ sponges جانوروں کی ابتدائی اور انتہائی خام شکل ہیں. دماغ تو دور کی بات ان میں کسی طرح کے بھی اعضاء نہیں ہوتے. صرف چند اقسام کے cells ہوتے ہیں. لیکن ان میں نہ صرف نیورانز (عصبی خلیے) بنانے کیلئے cells precursor موجود ہیں بلکہ دو نیورانز کے درمیان تمام پروٹینز بنانے والے جینز بھی ہیں. دماغ کا ارتقاء اتنا بھی معجزاتی نہیں ہے جتنا عام طور پر رابطے کے مقام (synapse)پر درکار تقریب ًا سمجھا جاتا ہے. تقریباً 55 کروڑ سال قبل ارتقاء پانے والے coelenterates میں بھی ایک مبہم قسم کا اعصابی نیٹ ورک موجود ہے اور ان کے نیورانز آپس میں رابطے کیلئے جو کیمیائی پیغامات استعمال کرتے ہیں انہی سے انسانی دماغ کی کیمیائی پیغام رسانی کا ارتقاء ہوا ہے. ارتقاء کو سمجھنے کے ساتھ ہی انسان کے جنوِن انفرادیت کو ایک بہت بڑا دھچکا لگتا ہے جسے ہر کوئی برداشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت نہیں رکھتا. آپ کا کیا خیال ہے؟ ~ جاری ہے.



Share this:
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to share on Skype (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 4 - ARKBIODIV.COM
Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 2 - ARKBIODIV.COM