ارتقاء کہانی
ڈاکٹر محمد طارق

قسط نمبر سات

اور کچھ رینگنے والے جانوروں (Reptiles)میں انڈے مادہ کے جسم کے اندر ہی fertilize ہوتے ہیں. اس مقصد کے حصول کیلئے نر اور مادہ کے درمیان تعاون کو جسمانی قربت میں بدل دیا گیا. پرندوں میں نر اور مادہ دونوں میں اس مقصد کیلئے نظام انہضام کے نچلے سرے پر موجود cloaca استعمال ہوتا ہے. نر اور مادہ قربت کے دوران کلوایکا ایک دوسرے کے قریب لے آتے ہیں اور اس دوران سپرمز مادہ کے جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں. ریپٹائلز میں تھوڑی سی زیادہ specialization جہاں نر میں اس مقصد کیلئے مخصوص نر عضو (Hemipenis)ہوتا ہےجو مادہ کے کلوایکا کے اندر داخل ہو کر سپرمز deliver کرتا ہے. مادہ پرندے فرٹیالئز ہونے کے بعد انڈے کلوایکا ہی کے راستے ڈیلیور کرتے ہیں جن سے بچے نکلتے ہیں. ریپٹائلز مادہ بھی انڈے دیتی ہے تاہم وائپر سانپوں میں فرٹیالئزیشن کے بعد بھی انڈہ مادہ کے جسم میں رہتا ہے اور اس میں سے بچہ مادہ کے جسم کے اندر ہی نکلتا ہے. انڈے سے نکلنے کے بعد مادہ کے جسم کے اندر بچہ انڈے کی زردی (Yolk)کھا کر بڑھتا رہتا ہے اور نشوونما پاتا ہے. مادہ کے جسم کے اندر محفوظ ماحول میں نشوونما پانے کے بعد بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ نسبتًا mature حالت میں پیدا ہوتا ہے اور خوراک یا حفاظت کیلئے والدین کا محتاج نہیں ہوتا. ریپٹائلز جیسی اولادسے مکمل طور پر لاپروا سپی شیز کی نسل کی بقاء کیلئے یہ ایک بہترین انتظام تھا. چنانچہ فطرت یہاں نہیں رکی. اگلے مرحلے میں مادہ کے جسم میں پلنے والے بچے کیلئے انڈے کی زردی سے خوراک کا انتظام کرنے کے بجائے یہ ذمہ داری مکمل طور پر مادہ کے ذمے لگا دی اور اس مقصد کیلئے اس کے جسم میں رحم مادر بنا کر آکسیجن اور خوراک کی ترسیل کیلئے اسے مادہ کیساتھ آنول(Placenta)کے ذریعے مکمل طور پر جوڑ دیا. مادہ میں کلوایکا کے بجائے مخصوص عضو (Vagina)کا ارتقاء ہوا جس کے اندر داخل ہو کر نر عضو (Penis)سپرمز مادہ کے جسم میں منتقل کرتا ہے اور زندگی کے ابتدائی مراحل طے کر نے کے بعد بچہ بھی اسی کے راستے باہر آتا ہے. مادہ کی ذمہ داری یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ پیدائش کے بعد بچے کی ابتدائی خوراک کیلئے مادہ کے جسم میں دودھ کے غدود (mammary glands)کا ارتقاء بھی ہوا (ہم ناشتے میں جو دودھ پیتے ہیں وہ بھینسوں اور گایوں کے بچوں کا حصہ اور حق ہے. ). میملز تک آ کر یوں لگتا ہے کہ فطرت نے اپنی ذمہ داری مکمل طور پر مادہ کو منتقل کر دی. مادہ میمل فطرت کیلئے ایک نسل پالنے والی مشین کے علاوہ کیا ہے؟ اس کی اپنی زندگی کہاں ہے؟ نر ایک مختصر قربت کے دوران سپرمز منتقل کرنے کے بعد ہر فکر سے آزاد ہوتا ہے جبکہ مادہ ایک عرصے تک بچے کو جسم کے اندر اور پیدائش کے بعد جسم کے باہر کچھ عرصے تک خوراک اور تحفظ فراہم کرتی ہے. اسے دو جسموں کی خوراک اور حفاظت کا انتظام کرنا ہوتا ہے. تاہم جب چوپایہ میملز کی اگلی دو ٹانگیں بازوؤں میں بدل گئیں اور وہ دو پاؤں پر کھڑے ہوئے (bipedal mammals)تو مادہ کیلئے صورتحال مزید ابتر ہو گئی. سیدھا کھڑے ہونے کی وجہ سے مادہ کا pelvis تنگ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں birth canal میں سے مکمل میچیور(mature) بچے کی پیدائش ناممکن ہو گئی. اس کا ازالہ فطرت نے دوپایوں کے بچوں کی پیدائش میچیوریٹی سے پہلے کر کے کیا. چنانچہ دوپایہ مادہ کی ذمہ داری پیدائش کے بعد مزید کئی سال تک بڑھ گئی. مسلسل بچوں کی پیدائش اور پرورش اب مادہ کیلئے ایک کاِر دشوار تھا. لٰہذا جس طرح فطرت نے اپنی ذمہ داری مادہ کو منتقل کی تھی، مادہ کو بھی اپنی ذمہ داری outsource کرنی پڑی. فطرت نے مادہ کے جسم کے اندر کوکھ بنائی تھی، مادہ نے خاندان کی صورت میں ایک بیرونی کوکھ بنائی. بے لگام، ہرجائی اور غیر ذمہ دار نر کو اپنی نسل کے تسلسل کیلئے پریگنینسی، بریسٹ فیڈنگ اور بچوں کی پرورش میں مصروف اور نتیجتًا جسمانی طور پر کمزور مادہ کی خوراک اور حفاظت کی ذمہ داری نبھانی پڑی. گویا فطرت کی خدمت کا ذمہ مادہ نے لیا تو مادہ کی خدمت کا ذمہ مرد کو لینی پڑی (خواتین و حضرات، زن مریدی فطری ہے، اس کا مذاق اڑانے والے کم فہم اور نادان ہیں). سوال یہ ہے کہ نسل کی حفاظت فطرت کر رہی تھی تو نسل کو خطرہ کس سے تھا؟ بیماری، موسموں کی شدت، قاتل جانور اور کیڑے مکوڑے، بھوک پیاس اور قحط؟ تو کیا یہ سب بھی فطرت کا ہی حصہ نہیں ہیں؟(اونچے پہاڑ، سرسبز درخت، اور شفاف پانی ہی نیچر نہیں ہیں، خشک صحرا، تباہ کن زلزلے اور سیالب بھی نیچر ہی ہیں). اور یہ جو فطرت نے سروائیول اف دی ِفٹیسٹ* کا اصول دیا ہے، ہم اس کے خالاف کچھ نہیں کر سکتے؟ یہ سوال سوچنے والا دماغ انسانوں** کے حصے میں آیا اور انہوں نے گزشتہ سارا حساب چکتا کرنے کا فیصلہ کیا. جنگل کاٹ کر موسموں کی شدت اور جانوروں سے بچاؤ کیلئے محفوظ گھر بنایا. اپنی مرضی کے درخت، فصلوں اور جانوروں کی نسل بڑھا کر بھوک اور قحط سے نمٹنے کیلئے فطرت کے ایک بڑے حصے کا صفایا کر دیا. دوائیں بنائیں. اور کلچر نامی ایک ایسا آلہ ایجاد کیا جس نے نر اور مادہ کے درمیان پائے جانے والے قدیم تعاون کو مزید وسعت دی. چنانچہ خاندان اور معاشرے نے not-so-fit-for-survival افراد کی بقاء کیلئے ایسے اقدامات کئے کہ نسل کی معدومیت کا خطرہ بظاہر ٹل گیا بلکہ چند ہزار سال پہلے تک بقاء کیلئے لڑنے والے انسان کو اچانک آبادی کے بے تحاشا اضافے کے خوف نے آ لیا. اب اسے نسل کی بقاء کے بجائے نیچر کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہوا. زندگی نے تو نیچر کی شرائط پر رہتے ہوئے بقاء کے چیلنج میں سرخرو ہوئی. اب دیکھئے کہ نیچر زندگی کے سامنے کب تک ٹھہرتی ہے. فطرت اور جدید ترین سپی شیز آمنے سامنے ہیں!
* ڈارون نے خود کبھی بھی سروائیول آف دی ِفٹیسٹ کا محاورہ استعمال نہیں کیا.
** انسانوں سے مراد صرف جدید انسان نہیں ہیں.

3 thoughts on “ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 7”

  1. Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 6 - ARKBIODIV.COM

Leave a Reply

ARKBIODIV.COM
%d bloggers like this: