ارتقاء کہانی
ڈاکٹر محمد طارق

قسط نمبر چھ

فطرت اپنی شاہ خرچی پر قابو پانے کیلئے کیا کر سکتی تھی؟ تولیدی مادے کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے پہال چیلنج جانداروں کے جسم سے خارج ہونے کے بعد بیرونی ماحول میں اس کی حفاظت تھی. اگر حفاظت یقینی ہو تو پھر کم تولیدی مادے سے بھی افزائِش نسل کا مقصد پورا کیا جا سکتا ہے جنسوں کی علیحدگی کے بعد نر اور مادہ نے جنسی تولید کیلئے تولیدی مادے اور پیدائش کے بعد بچوں کی حفاظت نیچر پر چھوڑ دی تھی. نیچر نے ذمہ داری نبھانے کیلئے نر اور مادہ کی غیر ذمہ داری کی قیمت ان سے ضرورت سے کئی گنا زیادہ تولیدی مادہ بنوا کر اور اسی حساب سے بچے پیدا کروا کر وصول کی. نیچر کے پاس بظاہر اس سے بہتر انتظام موجود نہیں تھا. جو سپی شیز اس انتظام کیساتھ نبھا سکتی تھیں، وہ آج بھی نبھا رہی ہیں. باقی سپی شیز کو خود آگے بڑھ کر ذمہ داری لینی پڑی. جانوروں کا اپنی اگلی نسل کے ساتھ اپنائیت کا احساس اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی. یعنی جانداروں کو “اپنے” انڈوں اور “اپنے” بچوں کی حفاظت کی فکر کرنی پڑے گی. حفاظت کی جائے تو تھوڑے سے تولیدی مادے اور کم تعداد میں بچوں کے ذریعے بھی نسل کی بقاء اور تسلسل کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اگلی نسل کیساتھ اپنائیت کے اس احساس کے تحت نر اور مادہ کے درمیان تعاون ضروری تھا تا کہ انڈے باہمی مشاورت سے کسی مقررہ جگہ پر ہی دیے جائیں جہاں ان کی حفاظت ممکن ہو. اس مشاورت کے نتیجے میں مادہStickleback (خارپشت مچھلی) نر کیساتھ اس کے بنائے ہوئے گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جس کے بعد نر بچے نکلنے تک اس گڑھے میں ان انڈوں کی حفاظت کرتا ہے. باقی مچھلیاں انڈوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے کنکر ہٹا کر کسی نرم جگہ کا انتخاب کر لیتی ہیں یا پھر سمندری جڑی بوٹیوں کی باقیات اکھٹی کر کے گھونسال بناتی ہیں. باور برڈ (Bowerbird)کی مادہ کے نخرے زیادہ ہیں. وہ باتوں سے مانتی نہیں. لیکن نر پرندے کو علم ہے کہ مادہ فیشن conscious ہے اور شوخ نیال رنگ اس کی کمزوری ہے. چنانچہ زن مرید نر باور برڈ اس کیلئے ایک ُکٹیا بناتا ہے (جو گھونسلے سے تھوڑی سی مختلف ہوتی ہے)اور نیلے رنگ دھاگوں، straws ،ریپرز اور بوتل کے ڈھکنوں سے اسے سجاتا ہے تا کہ جمالیاتی ذوق کی حامل مادہ وہاں آ کر انڈے دے (علیحدہ اور اپنے گھر کی خواہش انسانوں میں بھی مادہ کی ہی نہیں ہوتی؟).مختلف اقسام کی تقریب ًا 23 فیصد مچھلیوں میں کسی نہ کسی صورت میں والدین والی ذمہ داری (Parental care)پائی جاتی ہے. 17 فیصد صرف انڈوں کی جبکہ 6 فیصد انڈوں کیساتھ ساتھ نومولود بچوں کی بھی حفاظت کرتے ہیں. 80 فیصد پیرینٹل کیئر والی مچھلیوں میں یہ ذمہ داری نر اور مادہ میں سے کوئی ایک ہی نبھاتا ہے اور زیادہ تر یہ نر ہی ہوتا ہے. پرندوں میں عمومًا(تقریباً 85 فیصد) نر اور مادہ دونوں مل کر پیرینٹل کیئر کرتے ہیں. اس نئے انتظام (austerity measures)کا فائدہ وسائل اور توانائی کی بھر پور بچت کی صورت میں ہوا. عمومی طور پر گھونسلا بنانے والے پرندوں کے انڈوں کی تعداد بے گھر پرندوں سے کم ہوتی ہے (گھونسلے میں انڈے اور بچوں کی حفاظت کی وجہ سے زیادہ انڈے دینے اور بچے پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے). اسی طرح دوسروں کے گھونسلے میں انڈے دینے والے پرندے اپنا گھونسلا بنانے والے پرندوں سے زیادہ انڈے دیتے ہیں (جہاں خطرہ وہاں وسائل کا ضیاع). جہاں حفاظت کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں وہاں انڈوں کی تعداد (ضیاع)کم ہے۔ نر اور مادہ کے تعاون کا تجربہ کامیاب رہا تو نیچر نے مزید کفایت شعاری کی خاطر سپی شیز کو نر اور مادہ کی ساخت میں موجود variations سے استفادہ کرنے کا سلیقہ دیا. سمندری گھوڑے (Seahorse)میں نر کے جسم پر ایک تھیلی سی بنی ہوتی ہے. مادہ اپنے انڈے باہر پانی کے بجائے اس تھیلی میں دے کر نر کے حوالے کر دیتی ہے. نر سمندری گھوڑا ان انڈوں کی حفاظت کرتا ہے اور جب ان سے بچے نکلتے ہیں تو وہ انہیں پانی میں چھوڑ دیتا ہے. یہاں پیرینٹل کیئر کیساتھ جسمانی ساخت کی وجہ سے انڈوں اور بچوں کی حفاظت بڑھی تو نسل کی بقاء کو درپیش خطرات مزید کم ہوگئے. سمندری گھوڑے کی مادہ نسل کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے تقریبًا 1500 دیتی ہے. یاد رہے کہ سنگ ماہی مچھلی کی مادہ کو پانی میں 30 لاکھ تک انڈے دینے پڑتے ہیں! پیرینٹل کیئر کی ارتقاء کے دوران بچوں کی ذمہ داری آبی جانوروں میں نر نے کی۔ اگلے مرحلے میں یہ ذمہ داری پرندوں میں نر اور مادہ نے مشترکہ طور پر لی۔ لیکن mammals تک آ کر یہ ذمہ داری نیچر نے بالآخر مادہ کو سونپ دی اور اس کے جسم، اس کی کیمسٹری اور نفسیات میں اس ذمہ داری سے عہدہ براء ہونے کیلئے وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کیں. لیکن ذمہ داری کیساتھ طاقت بھی ملتی ہے. جب نیچر اپنی ذمہ داری سپی شیز کے کاندھوں پر ڈالتی ہے تو سپی شیز ذمہ داری کیساتھ ساتھ طاقت بھی حا صل کرتی ہیں. بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی. کسی مرحلے پر آ کر نیچر کو بھی گنجائش نکالنی ہوگی. تاہم ارتقاء کی کہانی میں ابھی اس مرحلے سے پہلے ایک دو قسطیں رہتی ہیں. فی الحال نیچر کا ہاتھ بھاری ہے. ~ جاری ہے.

3 thoughts on “ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 6”

  1. Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 5 - ARKBIODIV.COM

  2. Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 7 - ARKBIODIV.COM

Leave a Reply

ARKBIODIV.COM
%d bloggers like this: