ارتقاء کہانی
ڈاکٹر محمد طارق
قسط نمبر پانچ
جینیاتی نقائص (disorders genetic) کے تدارک کیلئے جینیاتی مادے میں ردوبدل (recombination)ضروری ہے. چنانچہ فطرت نے دونوں جنسوں کو علٰیحدہ کر کے مسئلہ حل کر دیا. جن میں ابھی جنس اکھٹے تھے ان میں کراس فرٹیالئزیشن کا ارتقاء ہوا. لیکن جنسی تولید کیلئے دونوں جنسوں کے تولیدی مادے کا مالپ بھی ضروری تھا جو کہ جنسوں کی جدائی کے بعد (یا کراس فرٹیالئزیشن کی صورت میں) آسان نہ تھا. یعنی ایک پھول کے پولنز (pollens) اگر دوسرے پھول کے اووری (ovary)تک پہنچانا یقینی بنانا ہوا تو کونسی حکمت عملی اپنائی جائے؟ دستیاب وسائل کیا ہیں؟ ہوا یا کیڑے مکوڑے پولن نر پھول(یا اعضاء)سے اٹھا کر چلیں تو کیا ضمانت ہے کہ وہ کسی پھول پر ہی جا کر ڈیلیور کریں گے؟ جس سپی شیز سے پولن اٹھائے ہیں اسی سپی شیز پر ڈلیور کریں گے؟ پھول کے اووری پر ہی ڈلیور کریں گے؟ ہوا پولن اٹھا کر زید بکر کی ناک یا آنکھ میں بھی تو ڈلیور کر سکتی ہے(آپ کی الرجی تو دو دن میں ٹھیک ہو جائے گی لیکن پھول کی نسل کی بقاء داؤ پر لگ جاتی ہے. کبھی سوچا ہے؟)نر اور مادہ آبی جانوروں کے سپرم اور انڈوں کو کیسے قریب لایا جائے؟ پانی میں سپرم اور انڈے پھینکنے کے بعد جانوروں کی نہیں پانی کی لہروں کی مرضی ہے، دونوں کو قریب لے آئیں، دور لے جائیں. یہ ایک گھمبیر مسئلہ تھا پیچیدہ مسائل کا مؤثر اور باکفایت حل بھی عمومًا پیچیدہ ہوتا ہے. کسی پیچیدہ مسئلے کا سادہ حل نکالنے کی کوشش کریں تو وسائل کا ضیاع یقینی ہے. لیکن فطرت کا اصول انقلاب نہیں ارتقاء ہے. وہ ایک جست میں سادگی سے پیچیدگی کی طرف نہیں جا سکتی. پیچیدہ حل کیلئے جانداروں کی ساخت اور فعل میں متعدد تبدیلیاں درکار ہیں اور جہاں ایک چھوٹی سی تبدیلی کیلئے کم از کم ایک نسل (generation)درکار ہوتی ہے وہاں متعدد تبدیلیاں کرنے، ان میں سے بہتر بقاء کیلئے مفید ایک کے بعد ایک تبدیلی کا انتخاب کرنے میں ہزاروں الکھوں سال گزرتے ہیں. ایسے میں کوئی نہ کوئی جگاڑ لگانا پڑتا ہے. جگاڑ لگانا سیکھنا ہو تو فطرت سے بہتر مثال شاید ہی ملے. چنانچہ فطرت وسائل کے ضیاع کی قیمت پر اس پیچیدگی کا سادہ حل نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے. ایک پودے کی نسل بڑھانے کیلئے ایک بیضہ (ovary)اور ایک پولن، اور ایک مچھلی کی نسل بڑھانے کیلئے ایک انڈہ اور ایک سپرم کافی ہوتے ہیں لیکن نر اور مادہ جنسوں کے درمیان ایک لامحدود ظالم سماج (ہوا، انسان، جانور، گاڑیاں… پتہ نہیں کیا کیا!) کی موجودگی سے نمٹنے کیلئے پھول جتنے پولنز بناتا ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے کبھی بہار میں اسالم آباد میں پولن کاؤنٹ کی خبریں دیکھ لیں. ہوا کے دوش پر یا کسی مگس کی ننھی ٹانگوں کیساتھ لگ کر کسی نہ کسی پولن کی ترسیل درست ایڈریس پر ہو ہی جائے گی. سنگ ماہی مچھلی (Sturgeon)لاکھوں انڈے دیتی ہے. اور جب ہزاروں الکھوں سنگ ماہی نر مادہ مچھلیاں ایک جگہ اکھٹے ہو کر تولیدی مادہ پانی میں ریلیز کرتی ہیں تو پانی اتنا دودھیا ہو جاتا ہے کہ مچھیرے دور سے ان کی موجودگی کا اندازہ لگا لیتے ہیں. پیشہ ور ماہی گیر ایسی جگہوں پر جال پھینک کر افزائش نسل کیلئے اکھٹی ہونے والی سنگ ماہی مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں. لیکن پیچھے پانی میں اتنا سارا تولیدی مادہ رہ جاتا ہے کہ ماہی گیروں کی کشتیوں اور پانی کی آوارہ لہروں کیساتھ بہہ جانے کے باوجود سپرم اور انڈے اتنی تعداد میں آپس میں مل ہی جائیں گے کہ فرٹیالئزیشن ہو جائے گی اور سنگ ماہی کی افزائِش نسل کا مشن پورا ہو جائے گا. بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اتنا تولیدی مادہ بنایا جائے کہ ضائع ہونے کے تمام تر امکانات کے باوجود کچھ نہ کچھ نر اور مادہ تولیدی مادے کے باہم ملنے کا غالب امکان موجود رہے. فطرت کے statistics کے کونسیپٹس درست تھے، تجربہ کامیاب رہا. مہنگے داموں ہی سہی لیکن پھولوں اور مچھلیوں کی بقاء کا مسئلہ حل ہو گیا. فطرت افراد سے بے نیاز ہے. اس کے آگے نسل کی بقاء اہم ہے، افراد کی نہیں. سنگ ماہی مچھلی ایک لاکھ سے تیس لاکھ تک انڈے دیتی ہے. اس کیلئے اس مچھلی کی کتنی توانائی ضائع ہوتی ہے؟ یہ سب کرنے کے بعد جب وہ اتنی تعداد میں انڈے دے دیتی ہے تو پانی دودھیا ہونے کی وجہ سے وہ ماہی گیروں کی نظروں میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے. لیکن نسل تو آگے چل جاتی ہے ناں!کچھ ماہریِن نفسیات کہتے ہیں کہ مرد اپنی ذات کے گرد جبکہ عورت فیملی، یا نسل کہہ لیں، کے گرد اپنی زندگی گزارتی ہے کیونکہ نسل کی افزائش عورت کے جسم سے ہوتی ہے. اس لحاظ سے عورت مرد کی نسبت فطرت کے زیادہ قریب ہوتی ہے. شاید ایسا ہی ہو. ہمیں نفسیات سے زیادہ ارتقاء میں دلچسپی ہے. اور ارتقاء کا اگلاسوال یہ ہے کہ فطرت نسل کی بقا کی خاطر اتنی فضول خرچی کب تک افورڈ کر سکتی ہے. کیا اسے کسی مرحلے پر کفایت شعاری کا سوچنا پڑے گا؟ فطرت کفایت شعاری کیونکر کر سکتی ہے؟ ~ جاری ہے.




Share this:
- Click to share on Twitter (Opens in new window)
- Click to share on Facebook (Opens in new window)
- Click to print (Opens in new window)
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window)
- Click to email a link to a friend (Opens in new window)
- Click to share on Skype (Opens in new window)
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window)
Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 7 - ARKBIODIV.COM
well done Dr. Tariq sab
Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 6 - ARKBIODIV.COM
well done Dr. Tariq sab
Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 4 - ARKBIODIV.COM
well done Dr. Tariq sab