ارتقاء کہانی
ڈاکٹر محمد طارق

قسط اول

زمین پر زندگی کا آغاز قریب ًا چار ارب سال پہلے ہوا اور اس نئی نویلی زندگی کا بوجھ سب سے پہلے اٹھانے والے بیکٹیریا جیسے سادہ ترین جاندار تھے. یہ بیکٹیریا ایک ایسی زمین پر جی رہے تھے جس کی فضا میں سانس لینے کیلئے آکسیجن نہیں تھی چنانچہ یہ اپنی بقاء کیلئے درکار توانائی نامیاتی مرکبات(organic compounds) کی توڑپھوڑ سے حاصل کرتے تھے. چونکہ زندگی ایک اجنبی دنیا، جس کا ماحول اس کے پھیالؤ اور تنوع کیلئے کچھ زیادہ سازگار نہ تھا، میں اپنے قدم جما رہی تھی اس لئے انیسویں صدی کے کسی اوپننگ بیٹسمین کی طرح ٹیسٹ میچ کے ابتدائی سیشن میں اس کی ساری توجہ زیادہ سکور کرنے کے بجائے اننگز کو مستحکم کرنے کیلئے پچ پر زیادہ وقت گزارنے پر تھی. کسی بھی بڑے ادارے یا پروگرام کو آخری شکل دینے سے پہلے ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ building capacity کا ہوتا ہے. نیچر کو ایک پائیدار، متنوع اور بھرپور زندگی شروع کرنے کیلئے دو ارب سال لگے. اس مقصد کیلئے، بقول Dennett Daniel کے، دنیا کی سب سے پہلی D&R بیکٹیریا نے سرانجام دی۔ Cyanobacteria پہلے جاندار تھے جنہوں نے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کر کے photosynthesis شروع کی جس سے فضا میں آکسیجن خارج ہونا شروع ہوئی اور جب زندگی کی عمر تقریب ًا ایک ارب سال تھی تو فضا میں وافر آکسیجن جمع ہو گئی تھی. لیکن نیچر ابھی بھی مطمئن نہیں تھی چنانچہ اگلے ایک ارب سال تک زمین کی ملکیت بال شرکت غیرے بیکٹیریا کے پاس رہی. بیکٹیریا prokaryotes unicellular ہیں. پروکیریوٹس کے cell میں نیوکلیئس اور خلوی اعضاء (organelles)کیلئے مخصوص کمپارٹمنٹ نہیں ہوتا اور یہ زیادہ پیچیدہ نظام ہائے حیات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے. دو ارب سال تک بیکٹیریا کی مختلف نسلیں اپنی الگ الگ صلاحیتوں اور خوبیوں کو نکھارتی رہیں. اس دوران مختلف نسلوں کی بیکٹیریا آپس میں بر سرِ پیکار بھی ہوتی ہوں گی اور اٹکھیلیاں بھی کرتی رہی ہوں گی. اسی طرح کی کسی سرگرمی میں ایک بیکٹیریا کا ایک archaebacteria کیساتھ ٹکراؤ ہوا اور archaebacteria نے اسے ہڑپ کر لیا. یہ ویسے تو روزمرہ کا واقعہ تھا لیکن ہڑپ کر کے اس کی توڑ پھوڑ کر کے اس میں سے توانائی کشید کرنے کے بجائے اس بار archaebacteria نے اسے اپنے اندر زندہ سلامت رہنے دیا. بائیولوجی میں اس طرح کے تعلق کو endosymbiosis کہتے ہیں. یہ زمین پر ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا پہال کامیاب تجربہ تھا جس کے نتیجے میں archaebacteria کی سروائیول fitness بڑھ گئی کیونکہ مہمان cell نے میزبان کیلئے powerhouse کے فرائض انجام دینا شروع کر دیے۔(mitochondria) اسی طرح کے ٹیکنالوجی ٹرانسفرز کے ذریعے یوکیریوٹس (eukaryotes)کے ارتقاء کا راستہ ہموار ہوا. یوکیریوٹس وہ جاندار ہیں جن کے cell میں نیوکلیئس کیساتھ ساتھ مختلف خلوی اعضاء ))مثلا مائیٹوکونڈریا وغیرہ) کیلئے الگ الگ کمپارٹمنٹس ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے متعلقہ افعال سرانجام دیتے ہیں. یہ زندگی کے آغاز کے بعد دوسرا بڑا انقلاب تھا جس کے نتیجے میں جانداروں میں تیزی سے تنوع(diversity) آئی اور microorganisms سے لیکر پودوں، درختوں، جانوروں اور انسانوں تک کے ارتقاء کیلئے بنیادی لوازمات پورے ہوگئے. یوکیریوٹس کے ارتقاء کیساتھ زمین پر پہلے تو پروکیریوٹس کی monopoly ختم ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یوکیریوٹس نے اسے رنگ، ساخت اور کردار کے حوالے سے لاتعداد انواع و اقسام کی زندگی سے بھر دیا. انسان اپنے تئیں اس زمین پر ارتقاء پانے والا سب سے ذہین اور کامیاب جاندار ہے تاہم یہ یاد رہے کہ آج ہم جو بھی ہیں، زمین کے ابتدائی شدید ترین حالات کا استقامت کیساتھ رہ کر مقابلہ کرنے اور زندگی کو ناپید ہونے سے بچانے والے بیکٹیریا کی بدولت ہیں. یہ نہ ہوتے، آکسیجن نہ بناتے تو کیا معلوم بات کہاں تک پہنچ پاتی اور کہاں جا کے رکتی. ~ جاری ہے.

The Endosymbiotic Theory

2 thoughts on “ارتقاء کہانی-قسط اول”

  1. Pingback: ارتقاء کہانی-قسط زیرو - ARKBIODIV.COM

  2. Pingback: ارتقاء کہانی-قسط نمبر: 2 - ARKBIODIV.COM

Leave a Reply

ARKBIODIV.COM
%d bloggers like this: